eng
competition

Text Practice Mode

غزوۂ کا ذکر ان اسلام

created Mar 17th, 16:43 by Naimat Ali


0


Rating

663 words
3 completed
00:00
کفار مکہ کے لئے اسلام کو مدینہ منورہ میں پھلتا پھولتا دیکھنا ناقابل برداشت تھا۔ پھر انہیں اپنے تجارتی قافلوں کی بھی فکر رہنے لگی۔ جس کا راستہ مدینہ کے قریب سے جاتا تھا۔ وہ دن رات منصوبے بناتے کہ مسلمانوں کو کس طرح ختم کیا جائے۔
کفار اپنا تجارتی راستہ محفوظ کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے ایک ہزار مسلح جوانوں کے ساتھ 2 ہجری کو مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپﷺ کو جب کافروں کے مدینہ پر حملہ کی اطلاع ملی تو آپﷺ رمضان کی 12 تاریخ کو 313 ساتھیوں کو لے کر مدینہ سے نکلے۔ مسلمانوں کے پاس ہتھیاروں کی بہت کمی تھی۔ تین سو تیرہ افراد کی سواری کے لئے ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے جب کہ کفار کے پاس بہت اعلیٰ قسم کے ہتھیار اور سواری کے لیے جانور تھے۔
آخر کار بدر کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ رمضان کی سترہ تاریخ کو پوری رات آپ نے عبادت  میں گزار ی اور   اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہے۔ فرمایا:
’’ اے یہ قریش غرور سے بھرے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تیرے ساتھ جنگ کریں اور تیرے رسولﷺ کو جھٹلائیں۔ اے اپنا وعدہ پورا فرما۔ اے اگر تیرے ماننے والوں کی یہ چھوٹی سی جماعت آج مٹ گئی تو پھر آسمان کے نیچے عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو گا‘‘۔
جب لڑائی شروع ہوئی تو مسلمان بہت بہادری اور ایمان کی قوت سے لڑے اور کفار پر فتح حاصل کر لی۔ ابو جہل اور قریش کے دوسرے بڑے بڑے سردار قتل ہوئے اور باقی میدان جنگ سے بھاگ گئے۔ 14 مسلمان شہید ہوئے جب کی 70 کافر مارے گئے اور 70 کافر گرفتار ہوئے۔ اس فتح سے کفار پر مسلمانوں کا رعب پڑ گیااور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے۔
غزوۂ احد
غزوۂ بدر میں کافروں کو ذلت اٹھانی پڑی جس کا انہیں بہت دکھ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایک بار پھر مسلمانوں سے لڑائی کی تیاری شروع کر دیں۔ مکہ معظمہ کے آس پاس کے قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا یا۔تین ہزار کی فوج لے کر 3 شوال  3 ہجری کو مکہ معظمہ سے مدینہ روانہ ہوئےان کے پاس ہزاروں اونٹ، دو سو گھوڑے اور کئے زرہ پہنے ہوئے لڑاکا جوان تھے۔
آپ کو جب اطلاع ملی تو آپﷺ نے بھی لڑائی کی تیاری کی۔ اس دفہ مسلمانوں کی تعدار ایک ہزار تھی اس بار منافق لوگ بھی مسلمانوں میں شامل ہو گئے تاکہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔
راستے میں عبداﷲ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا۔ اس طرح آپﷺ اپنے سات سو ساتھی لے کر روانہ ہوئے اور اُحد کے پہاڑ کے قریب رکے۔ اس پہاڑ پر ایک درہ تھا اس درے کی وجہ سے ایک خطرہ تھا کہ کہیں کافر اس راستے سے آکر مسلمانوں کو پیچھے سے حملہ نہ کر دیں۔ اس لیے آپ نے ۵۰ مجاہدین کو درے پر پہرہ دینے کے لیے کھڑا کیا اور فرمایا کہ لڑائی کوئی بھی صورت اختیار کرے آپ لوگوں نے اپنی جگہ کو نہیں چھوڑنا۔
لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں کافروں پر غالب آگئےاور کافر میدان چھوڑکر بھاگنے لگے۔ درے پر موجود مسلمانوں نے یہ سوچا کہ کافروں کو شکت ہو گئی ہےتو اپنی جگہ چھوڑ دی۔ کافروں کے لشکر میں خالد بن ولید نے جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے دیکھا کہ مسلمان اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں تو درے کے راستے واپس آئے اور حملہ کر دیا۔ اس حملے سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچااور حضورِاکرم بھی زخمی ہو گئے۔ لیکن جلد ہی مسلمانوں نے اپنی پوزیشن سمبھال لیں اور کافروں  کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ اس جنگ میں 70 مسلمان شہید ہوئےاور 22 کافر مارے گئے۔ احد کی لڑائی فیصلہ کن نہیں تھی۔ کیونکہ نہ مسلمانوں کو فتح ہوئی نہ کفار کو۔ جنگِ احدمیں مسلمان خواتین زخمیوں کو پانی پلاتی رہیں۔ حضرت فاطمہ ؓ نے آپﷺ کے زخموں کو دھو کر پٹی باندھی۔
 

saving score / loading statistics ...