eng
competition

Text Practice Mode

خطیب احمد کی اک فیس بک پوسٹ

created Sunday September 17, 17:28 by HamidRazaRajpoot


0


Rating

519 words
0 completed
00:00
ایک بچے کو وہیل چیئر دی۔ چند ماہ بعد اسکے والدین کی کال آئی کہ اگلا ایک ٹائر ٹوٹ گیا ہے۔ آکر وہ تو ٹھیک کرا دیں۔  
ایک سپیشل پرسن کو کمپیوٹر خرید کر دیا کہ ایڈوبی فوٹوشاپ سیکھ کر کوئی کام کر سکے۔ چند دن بعد اسکی کال آئی کہ مدر بورڈ جل گیا ہے۔ 8 ہزار روپے بھیج دیں وہ ڈلوانا ہے۔  
ایک سپیشل بچے کو وہیل چیئر لے کر دی۔ اسکے بڑے بھائی نے فون کیا کہ میری کریانے کی دوکان میں سودا ڈال دیں اور کوک کا فریزر بھی لے دیں۔  
ایک سرکاری سکول میں گہرا بور کروا کر پمپ اور فلٹر لگوایا۔ تین ماہ بعد سکول ہیڈ ماسٹر نے فون کیا کہ پمپ جل گیا ہے۔ وہ ہمیں ٹھیک کرا دیں۔  
ایک سپیشل پرسن کو دہی بھلے فروٹ چارٹ دوکان بنا کر دی۔ ایک ماہ بعد اسکی کال آئی کہ سر دوکان کا کرایہ بھی بھیج دیں۔  
ایک سپیشل بچے کے والد کو کریانے کی دوکان بنا کر دی۔ چند ماہ بعد اسکا فون آیا کہ سامان ختم ہو گیا ہے اور ڈال کر دیں۔  
کئی لوگوں کو کام شروع کرنے ممکنہ مدد کی انہوں نے جلد ہی سب کچھ بیچ دیا اور پھر کسی اور خطیب کی تلاش شروع کر دی۔  
ایسا نہیں ہے کہ ہم فوراً کسی کو پیسے دے دیتے ہیں۔ بہت زیادہ پوچھ تاچھ اور کاؤنسلنگ کے بعد کوئی بھی سیٹ اپ شروع کیا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔ ایسی باتوں سے بد دل ہو کر جو تھوڑا بہت کام کرتے ہیں وہ چھوڑ تو نہیں سکتے۔
یہ اور اس جیسے ہی سینکڑوں واقعات ہیں۔ جو ہر روز میرے ساتھ پیش آتے ہیں۔ پہلے غصہ آتا تھا۔ اب روٹین کا کام ہے ایسے رویوں کا سامنا کرنا۔ ان کو پیار سے گائیڈ کرتا ہوں کہ بھائی ایسے تو نہیں ناں کرتے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں انکے پاس کتنے پیسے ہیں۔ جو بھی لے سکتے وہ لے لو۔ (ہر کوئی ایسا نہیں ہے مگر اکثریت یہی سوچ رکھتی ہے)
 خود مختار ہونے اور اپنے حالات کو بدلنے کی ذمہ داری نہیں لینی بس خود کو بڑا مظلوم، قابل رحم و ترس اور منگتا ہی رکھنا ہے۔ کہ کوئی اور بھی ترس کھا کر کچھ دے سکے۔ ہر وقت کسی کی راہ ہی دیکھنی ہے کہ کچھ نہ کچھ کہیں سے فری مل جائے۔  
 یہ رویے صرف سپیشل افراد کے ہی تو نہیں ہیں۔ یہ ہم سب کا مجموعی رویہ ہے۔ جو ایک انگلی پکڑائے اسکا ہاتھ پکڑ لو۔ کوئی کھڑا ہونے کی جگہ دے وہاں بیٹھ جاؤ۔ بیٹھنے کی جگہ دے وہاں لیٹ جاؤ۔ اور اس کو آئندہ کسی بھی نیکی سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرنے پر مجبور کر دو۔  
اس چیز کا خاتمہ ہم کسی صورت بھی معاشرے سے نہیں کر سکتے۔ جو لوگ یہ پریکٹس سیکھ چکے ہیں وہ اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتے ۔ ان کو چاہے جیل میں ڈال دو۔ ہم استاد اور علماء ان رویوں پر مسلسل بات کرکے کم از کم اگلی نسل کو ضرور اس پریکٹس سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسکا کوئی اور حل تو ضرور بتائیے گا۔

saving score / loading statistics ...