eng
competition

Text Practice Mode

Pakistan Vs UK Relationship

created May 28th 2021, 13:40 by JhangviMunda


1


Rating

639 words
2 completed
00:00
اس سے تقریباً ایک ماہ پہلے 21 مارچ کو انہی دونوں شخصیات کے مابین گفتگو ہوئی تھی۔ امریکی محکمہ دفاع کے بیان کے مطابق امریکا نے افغانستان میں موجود ڈھائی ہزار افواج کے انخلا کو تیز کردیا ہے اس دوران ’سیکریٹری آسٹن نے پاکستان کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات قائم رکھنے کے امریکی عزم کا بھی اعادہ کیا‘۔ بیان کے اختتام پر کہا گیا کہ ’سیکریٹری آسٹن نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ وہ مشترکہ مفادات کے شعبوں میں امریکا اور پاکستان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں‘۔
 
اس کے بعد گزشتہ اتوار کو خبر آئی کہ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے جنیوا میں اپنے امریکی ہم منصب جیک سولیوان سے ملاقات کے بعد ٹوئیٹ کی کہ ’دونوں جانب سے پاک امریکا دوطرفہ تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا‘۔
 
اس ملاقات کے اگلے ہی روز آرمی چیف کا امریکی سیکریٹری دفاع سے ایک بار پھر ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ اس حوالے سے امریکا نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سیکریٹری دفاع نے ’افغان امن مذاکرات میں پاکستان کی مدد کو سراہا اور پاک امریکا دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا‘۔ یعنی دوطرفہ تعلقات کے معاملے پر بہت معمولی ہی صحیح لیکن پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔
 
تو ہم نے دیکھا کہ گزشتہ 3 ماہ میں پاکستانی آرمی چیف اور امریکی سیکریٹری دفاع کے مابین 3 ٹیلیفونک رابطے ہوئے اور دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ایک ملاقات ہوئی۔ ان معاملات کے ساتھ ہی کچھ نچلے درجے کے اہلکاروں کے درمیان بھی رابطے ہورہے تھے اور اس دوران آرمی چیف کا امریکی سفیر سے بھی رابطہ ہوا۔ یہ تمام رابطے ریکارڈ پر موجود ہیں۔
 
مزید پڑھیے: پاک-امریکا تعلقات کے فروغ کیلئے معاشی تعاون پر اتفاق
 
یہ غیر سنجیدہ رابطے نہیں ہیں۔ یہاں ضرور کوئی معاملہ چل رہا ہے۔ آخری بار آرمی چیف نے مارچ 2020ء میں امریکی سیکریٹری دفاع سے بات چیت کی تھی۔ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ موجود تھی اور لائڈ آسٹن کی جگہ مارک ایسپر تھے۔ وہ بات چیت امریکی حکومت اور افغان حکومت کے مابین مشترکہ اعلامیے پر دستخط ہونے اور طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے پر دستخط ہونے کے 3 ہفتے بعد ہوئی تھی۔
 
اس بات چیت کے بعد جاری ہونے والے بیان میں صرف امریکا کے ’حکومتِ پاکستان کے ساتھ طویل مدتی اور سیکیورٹی کے حوالے سے باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری کے عزم‘ کا ذکر کیا گیا۔ اس بیان میں دوطرفہ تعلقات کا کوئی ذکر نہیں تھا صرف ’مستقبل میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کے جاری رہنے‘ کا ذکر کیا گیا تھا۔
 
پاکستان اور امریکا کے درمیان اعلیٰ سطح پر بڑھتے ہوئے رابطے اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ کسی اہم معاملے پر بات چیت جاری ہے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کے بعد ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت کے حوالے سے جاری شدہ امریکی بیان میں دوطرفہ تعلقات کا ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی کوششیں کچھ رنگ ضرور لا رہی ہیں۔
 
اس وقت ہم حتمی طور پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کو 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن تک افغانستان سے افواج کے انخلا کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ایسا افغانستان چاہتا ہے جہاں دوبارہ جنگ شروع نہ ہوجائے۔ وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کی مدد کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔
 
پاکستان کی جانب سے اس بات چیت میں آرمی چیف بذات خود شامل ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ ’دوطرفہ تعلقات کو فروغ‘ دینا چاہتا ہے جس میں سیکیورٹی کے حوالے سے تعاون (یہ اسلحے کی ڈیل کے لیے سفارتی اصطلاح ہے) اور ’دیگر شعبوں‘ یعنی معاشی امداد میں تعاون شامل ہے۔ اور یوں پاکستانی حکومت کی جانب سے ’جیو اکنامکس‘ کی طرف پیش قدمی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

saving score / loading statistics ...